Subscribe Us

ads header

Breaking News

کرونا وائرس خوف کی علامت بن چکا ہے ، تحریر : منور علی شاہد



کورونا وائرس ایک آفت ناگہانی کی شکل میں دنیا پر حملہ آور ہو چکی ہے اور گلوبل دنیا دیکھتے ہی دیکھتے سمٹنا اور سکڑنا شروع ہوئی تو شہروں محلوں سے ہوتی ہوئی گھروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کیا پسماندہ ممالک اور کیا جدید ترین ترقی یافتہ سبھی ممالک سراسیمیگی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے ایسے فیصلے سننے میں آرہے ہیں کہ بندہ سن کرحیران پریشان ہو جاتا ہے۔  ایک معمولی  وائرس جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صرف احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور صرف یاتھ دھوتے رہنے سے اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے لیکن اس کے خوف کا یہ عالم ہے کہ بڑی بڑی طاقتوں اور مضبوط اعصاب کی مالک عالمی شخصیات  خوفزدہ ہیں۔  وائرس کے حوالے سے نئی نئی کہانیاں پڑھنے کو مل رہی ہیں، کوئی اس کو سرد ممالک کی وبا کہتا ہے اور کوئی گرم ممالک کی۔ لکھنے والوں نے اس کو امریکی،یہودی سازش تک بھی لکھ دیا کہ یہ چین کے خلاف سازش تھی۔ لیکن جب ایران اور یورپ سمیت دنیا بھرمیں پھیلنے لگا تو پھر حقیقی تشویش اور فکر لاحق ہوئی کہ معاملہ تو کچھ اور ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دے دیا  ہے۔  اس ادارہ کی ایک رپورٹ کے مطابق  یہ وائرس اب تک 162ممالک میں پھیل چکا ہے۔ دنیا بھر میں اب تک ایک لاکھ82ہزار افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد7154 ہے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ79000افراد کرونا کے مرض سے مکمل نجات بھی پا چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے یورپ کو  وائرس کا نیا مرکز قرار دیا ہوا ہے اور اٹلی یورپ کا سب سے متاثرہ ملک ہے اور پورے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ اسی ملک میں واحد پاکستانی شہری قیصر شہزاد کی وفات ہوئی ہے۔  بریشیا کے علاقے میں کرفیو کا سا سماں ہے، دور دور کہیں کسی سڑک پر کوئی ذی روح  دکھائی نہیں دیتا۔یورپ  میں کورونا  کے متاثرین کی تعداد35000سے تجاور کرچکی ہے۔ ان میں سے صرف اٹلی میں  متاثرین کی تعداد27000ہے۔  اٹلی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد2158 ہو چکی ہے۔  تادم تحریر جرمنی میں متاثرہ مریضوں کی تعداد7610 اور ہلاک شدگان کی تعداد17ہوچکی ہے۔ تمام تعلیمی ادارے بند، عوامی تفریحی مقامات اور عباد تگاہوں پر لوگوں کے داخلے پر پابندی عائد ہو چکی ہے۔ سڑکیں ویران ہو چکی ہیں، ہر طرف ہو کا عالم ہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدیں مکمل سیل کردی گئیں ہیں،بڑے بڑے تفریحی مقامات ویران ہو چکے ہیں۔یہ انسانی آزمائش ہے، کورونا نے بلامتیاز ہر ایک پر حملہ کیا ہوا ہے۔ یہ ایک اجتماعی عالمی جنگ ہے جس کو اتفاق اور تدبر و تحمل اور سائنس  کے ساتھ جیتا جاسکتا ہے۔ عالمی اور دیگر صحت کے ادارے بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ صرف احتیاط کرنے سے اس سے بچا جاسکتا ہے لیکن اس کی بیماری سے زیادہ اس کا خوف زیادہ خطرناک ثابت ہورہا ہے۔ یہی بنیادی بات ہے جس کو ہر خاص وعام کو سمجھنے کی ضرورت ہے لیکن خوف کا یہ عالم ہے کہ اب اعلیٰ حکومتی اور کاروباری اداروں کے مذاکرات ویڈیوز کانفرنس کے ذریعے ہورہے ہیں۔عالمی سربراہان ملاقات میں ہاتھ ملانے کے قابل نہیں رہے۔ عجب مضحکہ خیز صورتحال جنم لے چکی ہے۔ایک بین الاقوامی پرواز میں ایک مسافر کی چھینک مارنے سے دوران پرواز مسافروں میں لڑائی شروع ہوگئی  اور فلائٹ مچھلی بازار بن گئی تھی۔ کورونا کے متاثرین اور ہلاک شدگان کی تحقیق کے مطابق زیادہ عمر رسیدہ، بیمار یا کمزور قوت مدافعت رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔  لہذا ایسی خوراک اور اشیاء کھانے کی ضرورت ہے جس سے جسم کے اندر قوت مدافعت اور گرمی پیدا ہو۔ کورونا کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا خطرہ عوامی جم غفیر ہے لہذا ایک بات جو دنیا بھر کے ممالک میں مشترک نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ فی الحال عارضی طور پر وہ تمام مراکز بند کردیئے گئے ہیں یا کئے جارہے ہیں جہاں جہاں لوگوں کے اجتماعات ہوتے تھے۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کے مقدس مقامات اور عبادات کے مراکز مکمل بند ہیں، جس پر طرح طرح کی چہ مگوئیاں بھی ہورہی ہیں۔ لیکن یہ وقت کا تقاضا ہے اور جب انسانی بقاء کا مسئلہ پیدا ہو وہاں ایسے اقدامات انسانی مفاد اور مذہبی تعلیمات کے عین مطابق ہوتے ہیں۔چین جہاں سے یہ وائرس شروع ہوا تھا اور ایک وہ وقت بھی تھا جب پوری دنیا چین پر طرح طرح کے تبصرے کر رہی تھی۔ پھر اچانک سب کچھ اتنی تیزی سے بدلا کہ آج مناظر ہی کچھ اور ہیں۔کورونا  بلا امتیاز ہر علاقے اور ملک میں پھیل رہا ہے۔ایک غیر معمولی اور زبردست حکمت عملی کے بعداب چین میں وائرس کنٹرول میں ہے اور یورپ میں بے قابو ہو چکا ہے۔ پولینڈ کے15حکومتی وزراقرنطینہ میں پہنچ چکے ہیں، اسی طرح اٹلی سمیت دیگر ممالک کے اہم ترین سرکاری اہلکار کورونا کا شکار بن چکے ہیں۔ کورونا وائرس سے انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ معیشت کو شدید خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ کورونا کے خوف اور اس سے بچنے کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کے نتیجہ میں بڑے بڑے ممالک، مالیاتی،کاروباری ادارے اور خصوصا ائیر لائنز کے دیوالیہ ہونے کے امکانات غیر معمولی طور پر بڑھ چکے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے ائیرپورٹس بند اور ویران ہو چکے ہیں، آسمانوں پر اڑنے والے جدید ترین جہاز زمین بوس ہو چکے ہیں۔ اس وقت یورپ  میں جس طرح ایک دوسرے ممالک کے اندر جانے کے تمام زمینی اور فضائی راستے بند ہو چکے ہیں اس سے ان خدشات کو تقویت مل رہی ہے کہ کورونا کے کنٹرول ہونے کے بعد اس کے اثرات زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔

No comments